(ڈاکٹر نگینہ پروین)
ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی میں زیادہ تر ذہین افراد کامیاب ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات نے اس سلسلے میں جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق ذہانت اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے مگر کامیابی کا راز صرف ذہانت پر نہیں بلکہ انسان میں چھپی ایک صلاحیت پر ہے جو زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ہماری رہنمائی کرتی اور ہمیں بہتر زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہے۔ اس صلاحیت کو مشہور ماہر نفسیات ڈینل گلومین نے جذباتی ذہانت کا نام دیا ہے جو معاشرتی نفسیات دانوں کے لیے ایک جدید اصطلاح ہے۔ گلومین کا کہنا ہے کہ ’’کسی شخص کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ وہ بہت ذہن ہو بلکہ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ اس کی اپنی شخصیت ایسی ہو جو ذہنی صلاحیت کے بہترین استعمال کے لیے مددگار ثابت ہو‘‘ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صلاحیتیں بہت کم لوگوں میں یکجا ہوتی ہیں۔ ایسے لوگ جس میں ذہانت اور جذبات پر بیک وقت کنٹرول کی صلاحیت موجود ہو، اصل میں زیادہ عرصے تک کامیاب اور خوش رہنے کا فن جانتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی ان خوبیوں کو معاشرتی رویوں پر اثر انداز کرتے ہیں۔ گلومین اپنی تحقیق کے نتیجے میں کہتے ہیں: ’’جو لوگ اپنے جذبات پر کنٹرول کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ ماحول سے مطابقت رکھنے والے، بہت مشہور، محنتی، پراعتماد اور بھروسے والے ثابت ہوتے ہیں، جب کہ جو لوگ جوشیلے، بے صبرے، جذباتی اور مزاجی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں وہ عام طور پر نہ صرف ناکام بلکہ اپنی عملی زندگی میں ضدی اور اپنی من مانی کرنے کی وجہ سے جلد ہی احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہار بھی جلدی مان لیتے ہیں۔‘‘گلومین کا کہنا ہے کہ جذباتی ذہانت کی موجودگی اور غیر موجودگی کا اندازہ کسی بھی شخص کے بچپن میں لگایا جاسکتا ہے۔ بقول ماہرین نفسیات، ضرورتوں کے حصول میں جلد بازی کے بجائے صبر سے کام لینا بڑا فن ہے جو دراصل جذبات پر عقل کی فتح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی عمل جذباتی ذہانت کی نشاندنی ہے کہ جس کی وجہ سے آدمی خراب ترین حالات سے سمجھوتہ کرلیتا ہے۔
جذباتی ذہانت اصل میں بہتر رویے، دوسروں سے اچھا برتائو، تہذیب و شائستگی، صبر و تحمل اور بردباری جیسی خصلتوں پر مشتمل ہوتی ہے، اسی لیے اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ مذکورہ خصلتوں کے ذریعے سے ہی ہمارے کردار میں بہتری اور پختگی آتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسروں سے بہتر روابط، بہتر کارکردگی، کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے، معاشرتی اور اقتصادی طور پر مقاصد اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں بھی یہی خصلتیں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اپنی کسی بات کے جواب میں مخالف کا ردِعمل کیا ہوسکتا ہے، وہی لوگ زندگی کو بہتر طور پر گزار سکتے ہیں اور جو لوگ یہ صلاحیت نہیں رکھتے وہ خواہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، زندگی میں انہیں اکثر ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلکہ ان کے لیے ذہی سکون حاصل کرنا اور منزل پر پہنچنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ اس طرح سے ہماری سلامتی اور جذبات کے درمیان انتہائی قریبی اور گہرا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ غصے، پریشانی، اداسی اور تکلیف دہ حالات میں اس بات کا بالکل بھی لحاظ نہیں رکھتے کہ جذبات کے اس طرح کھلے اظہار کا ان کے اپنے علاوہ ان سے وابستہ دوسروں لوگوں پر کیا اثر ہوگا لیکن جو لوگ جذباتی ذہانت کے حامل ہوتے ہیں وہ ایسے حالات میں خود پر قابو رکھتے ہیں اور اگر جذباتی اظہار کی ضرورت پڑے تو ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا بہتر طریقہ بھی ہوتا ہے۔ غصہ کرنا آسان فعل ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں